Friday 23 March 2012

[HM:252082] iیک زندہ اور خوبصورت قوم کی ایک خوبصورت کہانی




ایک سچا واقعہ

تاریخ سولہ مارچ 2011

شام کا وقت 


مقام فوکو شیما جاپان 


آج زلزلے کو پانچ دن گزر چکے ہیں . ایک مقامی سکول میں ایک چیئرٹی آرگنائزیشن پناہ گزینوں میں خوراک تقسیم کر رہی ہے. ایک بہت لمبی قطار میں لوگ اپنی باری کے انتظار میں کھڑے ہیں. 

قطار کے آخر پر ایک نو سال کا ایک ایسا معصوم سا بچہ بھی کھڑا ہے جس کے ماں باپ کو سونامی کا ایک ظالم ریلہ اس کی آنکھوں کے سامنے بہا کر لے گیا تھا وہ اس وقت تیسری منزل پر موجود تھا اس لئے بچ گیا اس سیلاب میں اس کے تمام رشتہ دار بہہ گئے تھے . 



بچہ قطار میں کھڑا سردی سے آہستہ آہستہ کانپ رہا ہے اس نے صرف ایک نیکر اور ٹی شرٹ پہنی ہوئی ہے اور شام کے اترنے کے ساتھ سردی بھی بڑھتی جا رہی ہے. 


ایک پولیس مین کی نظر اس پر پڑتی ہے وہ اس کے قریب جاتا ہے اپنی جیکٹ اتار کر اس کو پہنا دیتا ہے پھر اپنے حصے کی خوراک کا پیکٹ بچے کو دے کر کہتا ہے بیٹا قطار بہت لمبی ہے شاید آپ کی باری آنے سے پہلے خوراک کا ذخیرہ ختم ھو جائے. آپ میرے حصے کی خوراک لو اور جا کر آرام کرو سردی زیادہ ھو رہی ہے بیمار ھو جاؤ گے . بچے نے پیکٹ لیا اور خاموشی سے جا کر خوراک کے ڈھیر پر رکھ دیا۔ اور واپس آ کر پھر قطار میں کھڑا ہوگیا. پولیس والے نے پوچھا بیٹا آپ نے ایسا کیوں کیا یہ خوراک تو میں نے آپ کے کھانے کیلئے دی تھی . نو سال کا بچہ بولا : سر آپ کا شکریہ لیکن یہاں قطار میں مجھ سے بھی کہیں زیادہ بھوکے لوگ موجود ہیں. اگر ان کی ضرورت سے زیادہ کھانا بچ گیا تو میں بھی کھا لوں گا . ورنہ ایک رات کی بھوک تو برداشت کر ہی لوں گا. 


آپ کا کیا خیال ہے شاید صرف ایک بچے کے والدین اچھے تھے جنہوں نے اس کی اتنی اچھی تربیت کی تھی ؟ نہیں. . . سونامی کے چھ ماہ بعد جب عام جاپانی شہریوں کو ملبے کے ڈھیروں سے سات کروڑ اسی لاکھ ڈالر کے کرنسی نوٹ اور قیمتی اشیا ملیں تو انہوں نے فورآ پولیس کو اطلاع دی. اسی طرح ایسی چھ ھزار تجوریاں ملیں جن میں 30 ملین ڈالر کی قیمتی اشیا تھیں وہ بھی پولیس کے حوالے کر دیں اور پولیس نے یہ تمام اشیا اور رقوم بچ جانے والے افراد کو ڈھونڈ کر ان تک پہنچائیں. 



ایک اور چھوٹا سا واقعہ سناتا ہوں اپنے پیارے ملک پاکستان میں ایک خوفناک بس ایکسیڈنٹ ہوتا ہے کچھ قریبی آبادیوں کے لوگ وہاں پہنچتے ہیں وہ لوگ ان کی جانیں بچانے کیلئے کچھ نہیں کرتے بلکہ زخمیوں اور فوت ھو جانے والوں کا قیمتی سامان اور رقوم سمیٹ کر چل دیتے ہیں. ایک زخمی خاتون ان کو آواز دے کر کہتی ھے کہ میرا قیمتی زیور لے لو مگر میرے معصوم زخمی بچے کی جان بچا لو . 


مجھے ،،،،،،،،،،اور کچھ نہیں کہنا ،،،،،،،اقبال کا ایک شعر ھے. 

رحمتیں تیری ہیں اغیار کے کاشانوں پر 

برق گرتی ھے تو بیچارے مسلمانوں پر 

آپ کے خیال میں رحمتوں کا حقدار کون ھے اور برق سے جلائے جانے کا حقدار کون؟

--
We are also on Face Book, Click on Like to jois us
FB Page: https://www.facebook.com/pages/Hyderabad-Masti/335077553211328
FB Group: https://www.facebook.com/groups/hydmasti/
 
https://groups.google.com/d/msg/hyd-masti/GO9LYiFoudM/TKqvCCq2EbMJ

No comments:

Post a Comment